بیٹی کی دعا

فاخر رضا
ایک اور مصروف ترین دن کا حال سنیں 
تقریباً 45 سال کا مرد، ایک بیٹی کا باپ اور روزگار کی غرض سے اپنے وطن سے دور 
میرے پاس وہ شخص خون کے کینسر کے وارڈ سے لایا گیا، وہاں اس کے علاج کی تمام تر کوششیں کی جاچکی تھیں. اس کا مرض یہ تھا کہ اس کے خون میں پلیٹلیٹ نام کے خلیے نا ہونے کے برابر رہ گئے تھے. اس وجہ سے اسے ہر طرف سے خون بہ رہا تھا. تمام مریضوں کی طرح یہ مریض بھی مصنوعی سانس کی مشین پر تھا. مگر اس کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے جگر نے کام چھوڑ دیا تھا، بیلی روبن آسمان پر تھا، گردے ڈھے گئے تھے اور اس کا ڈائلیسس ہورہا تھا، بلڈ پریشر کم اور مسلسل خون چڑھایا جارہا تھا. اسی دوران پھیپھڑوں سے خون آنے لگا، ایک طوفانی کیفیت ہوگئی. خیر جو بھی طریقے مہیا تھے سب اختیار کئے. آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین علاج مہیا ہے اور وہ سب ذرائع استعمال کئے جارہے تھے. اس آدمی کا روزانہ پلازمہ بھی تبدیل کیا جا رہا تھا. اور یہ عمل بھی بہت پیچیدہ تھا. میرے جتنے بھی سینیئر تھے انہوں نے اس طرح کے کیس کو بچتے نہیں دیکھا تھا. نوے فیصد لوگ مرجاتے ہیں وہ بھی ترقیم یافتہ ممالک میں. خیر چونکہ یہ ہمارے ہی ملک کا شہری تھا لہٰذا اس کی فیملی سے بات کرنے کی ذمہ داری مجھ پر تھی. اس کی بیوی بہت ہی صابرہ تھی، خود نرس رہ چکی تھی اور سب دیکھ اور سمجھ رہی تھی. میں نے سب کو بلا کر بری خبر سنائی، ایسے جیسے پھانسی والی رات فیملی کو بلایا جاتا ہے. انہیں بتایا کہ یہ مرنے والا ہے اور ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ سود مند ثابت نہیں ہو رہا. انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان لے جائیں گے. پھر انہوں نے کہا کہ ہمیں خدا پر بھروسہ ہے اور یہ ٹھیک ہوجائیں گے. اس پر میں نے انہیں بتایا کہ ہم یہاں خدا کو نہیں لاسکتے، اور فی الحال صرف میڈیکل ہی کی بات کررہے ہیں ہاں آپ دعا کرتے رہیں. مجھے ویسے کچھ حوصلہ ملا اور میں نے اپنا ٹیم سے کہا کہ اب ہمیں ذرا بھی کوتاہی یا غفلت نہیں برتنی اور اگلے دو دن وہ سب کچھ کرنا ہے جو اب تک کررہے تھے ساتھ ہی ساتھ خون کے ایکسپرٹ کو بھی دوبارہ بلایا. انہوں نے بھی اپنی طرف سے دوائیں دیں. ساتھ ہی پلازمہ بھی تبدیل ہوتا رہا. 
ٹھیک دو دن بعد ہم نے دیکھا کہ اب اسے پلیٹلیٹ دینے کی ضرورت نہیں پڑرہی. باقی حال ویسا ہی تھا. مجھے اندر سے ایک امید پیدا ہوئی. ملک کا ہونے کی وجہ سے ایک جذباتی تعلق بھی ہوگیا تھا اور ایک چیلنج بھی تھا. خیر اگلے دو دن میں مزید حالت بہتر ہوئی. ایک بات پہلے لکھنا بھول گیا کہ اسے مرگی کے چھٹکے بھی پڑ رہے تھے جس کی وجہ سے وہ بیہوش تھا. آہستہ آہستہ بیہوشی بھی ٹھیک ہوتی گئی. پانچ دن بعد اسکی بیوی اسے ٹیبلٹ پر اسکی بیٹی کی تصویر دکھا رہی تھی اور وہ خوشی سے رو رہا تھا 
اگلے چند دن میں وہ وینٹیلیٹر سے باہر آگیا اور کافی حد تک صحتیاب ہوگیا. ابھی امریکہ آنے سے چند دن پہلے وہ وارڈ میں چلا گیا. ابھی بھی اسکا پلازمہ تبدیل ہوتا ہے اور شاید کچھ عرصہ ہوتا رہے، مزید ڈائلیسس کی ضرورت نہیں رہی اور باقی عضلات بھی روبہ صحتیابی ہیں 
مجھے میرے دوست کہتے ہیں کہ تم موت کا یقینی وقت کیسے بتا دیتے ہو تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ میں موت کا وقت لکھتا نہیں ہوں وہ کام خدا کا ہے، میں تو صرف پڑھ کر بتا دیتا ہوں. مگر کبھی کبھی خدا بھی اپنا لکھا بدل دیتا ہے اور موت کو ٹال دیتا ہے. بلک مکمل طور پر صحت یاب کردیتا ہے. اب جن لوگوں سے کہا تھا کہ وہ نہیں بچے گا وہ بہت خوش تھے اور سمجھ رہے تھے کہ یا تو معجزہ ہو گیا ہے یا ڈاکٹروں نے بہت محنت کی ہے. محنت تو خیر ہر ایک کے ساتھ ہی کرنی پڑتی ہے مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس مریض کی جان خدا نے اسکی ننھی بیٹی کی دعاؤں کے صدقے میں بچالی. خدا سب کی بیٹیوں کو زندہ سلامت اور ہنستا کھیلتا رکھے. بیٹیاں سچ مچ میں موت سے لڑ جاتیں ہیں اور باپ کو بچا لیتی ہیں. اور ایسے موقعوں پر باوجود اپنی کچی ہونے کے میں بہت خوشی محسوس کرتا ہوں، ایک ایسی خوشی جو روپے پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی.

فاخر رضا

بلاگر

میرا تعارف!

0 تبصرے :

ایک تبصرہ شائع کریں