جھوٹ کی تعریف

فاخر رضا
جھوٹ کی تعریف 
حضرت علی علیہ السلام کا ایک قول ہے، اشیاء کو ان کی ضد سے پہچانو. سچ حقیقت اور واقعیت کو کہتے ہیں اس کی ضد جھوٹ ہے. میں زیک کی اس بات سے متفق ہوں کہ جھوٹ کی تعریف نہ کی جائے، دراصل یہ اس قابل ہی نہیں کہ اسے اتنا منہ لگائیں. بے پیندے کے برتن میں گھی نہ تو گرم ہوسکتا ہے نہ جمع کیا جاسکتا ہے. دنیا کی سب سے بڑی حقیقت حق سبحانہ تعالٰی کی ذات ہے. اہل معرفت کہتے ہیں اس ذات کے سوا کوئی ذات واجب نہیں اور ہر شے اتنی ہی حقیقت رکھتی ہے جتنی ذات اعلی صفات سے قریب ہے.
مسیلمہ کذاب کی پوری اسٹوری کہاں سے مل سکتی ہے۔ وہ کون تھا اس نے کیا دعویٰ کیا اور اس کو کیا جواب دیا گیا۔ ابھی تک میں نے اس کا ذکر اسی طرح چلتے پھرتے ہی پڑہا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اسے کھوجنے کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ آج ہزاروں لوگ نہ صرف زکات نہیں دیتے بلکہ کرپشن کا پیسہ شیر مادر کی طرح اپنا حق سمجھ کر کھا جاتے ہیں۔ دو ارب روپے دے کر اڑتیس ارب کھا جاتے ہیں۔ ان پر کسی نے فتویٰ نہیں دیا۔ ہم لوگوں نے حال میں آنا ہی نہیں ہے۔ صوفی کم از کم حال میں تو رہتے ہیں۔ انہیں اپنے اور خدا کے علاوہ کسی سے سروکار خاص کر بیر نہیں ہوتا۔ ہم کسی کو کافر اور جھوٹا بنا کر فخر سے اپنا سر بلند کرتے ہیں۔ رسول خدا پر ہماری جان قربان ہے اور ان کی ہر بات سچ اور وحی کے عین مطابق ہے۔ ہم لوگ ان کی پوری حیات طیبہ پڑھ کر ہی صحیح نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے تھے۔

فاخر رضا

بلاگر

میرا تعارف!

0 تبصرے :

ایک تبصرہ شائع کریں