غرور و تکبر

فاخر رضا
غرور اور تکبر
غرور: یہ ایک عربی کا لفظ ہے اور اس کا مادہ غرر ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے۔ غرر یا غررت کا مطلب ہے دھوکا دینا۔ کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد پورا کرنا۔اس کی کئی مثالیں قرآن کریم میں ملتی ہیں۔
یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ (6)انفطار سورہ ۸۲ ترجمہ: اے انسان تجھے اپنے پروردگار کے بارے میں کس چیز نے دھوکہ دیا ہے۔
وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْْطَانُ إِلاَّ غُرُوراً(64)بنی اسرائیل سورہ ۱۷ ترجمہ: اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکہ ہے۔
َ وَما الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ(185) آل عمران سورہ ۳ ترجمہ: اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔
 وَلَا یَغُرَّنَّکُم بِاللَّہِ الْغَرُورُ (33)  لقمان سورہ ۳۱ترجمہ: اور نہ فریب دینے والا (شیطان) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا دھوکہ دے۔
پس غرور سے مال و جاہ، خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ شیز مراد ہت جو اسنان کو فرین میں مبتلا کردے۔ بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ جو چیزیں انسان کو فرین میں منتلا کریہ ہیں ، شیطان ان سن سے زیادہ خبیث ہیاور بعض نے اس کی تفسیر دنیا سے کی ہے۔ کیونکہ دنیا بھی انسان کے ساتھ فریب کھیلتی ہے، دھوکہ دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ اردو میں عام طور پر تکبر کا ترجمہ غرور ہی کیا جاتا ہے۔ اوریہ الفاظ ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ مغرور یا متکبر دراصل اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے۔ اور خدا کی دی ہوئی چیز پر ملکیت جتا کر اترا رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک بڑا دھوکہ ہے۔

تکبر:
یہ لفظ کبر سے مشتق ہے۔ کبر ، تکبر اور استکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں۔ پس کبر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان میں عُجُب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور ؑجب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروںسے بڑا خیال کرے۔ اور سب سے بڑا تکبر قبولِ حق سے انکار اور عبادت سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے۔
قرآن کریم میں استکبار سے مراد یہ ہے کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں۔
قرآنی مثالیں:
َ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ (34)بقرہ سورہ ۲ ترجمہ: شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔
ْ تَسْتَکْبِرُونَ فِیْ الْأَرْضِ بِغَیْْرِ الْحَقِّ (20)  احقاف سورہ۴۶ترجمہ: کہ تم ناحق زمیں میں غرور کیا کرتے تھے۔
إِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُواْ عَنْہَا (40) اعراف سورہ ۷ترجمہ: جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو چھٹلایا اور ان سے سرتابی کی۔
فَاسْتَکْبَرُواْ وَکَانُواْ قَوْماً مُّجْرِمِیْنَ(75) یونس سورہ ۱۰ترجمہ: اور انہوں نے تکبر کیا اور وہ گناہگار لوگ تھے۔
لفظ فَاسْتَکْبَرُواسے اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ انہوں نے قبولِ حق کے سلسلے میں تکبر، نخوت اور خود پسندی سے کام لیا اور پھر وہ کَانُواْ قَوْماً مُّجْرِمِیْن کہ کر یہ بتایا کہ ان کے سابقہ جرائم نے ہی انہیں تکبر پر اکسایا تھا اور یہ تکبر ان کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی بلکہ ان کا شیوہ بن چکا تھا۔
تکبر کا استعمال اگر ایسے موقع پر کیا جائے جہاں فی الحقیقت کسی کے افعالِ حسنہ زیادہ ہوں اور وہ ان پر دوسروں سے بڑھا ہوا ہواسی معنی میں اللہ تعالیٰ صفت تکبر کے ساتھ متصف ہوتا ہے۔ (دراصل سوائے خدا کے کوئی اور ہستی تکبر کے لئے سزاوار ہی نہیں ہے کیونکہ ہر حسن خدا کی دین ہے اور بدرجہ کمال ذات خدا میں عین ذات کے طور پر موجود ہے)
ُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ (23)حشرسورہ۵۹ترجمہ: غالب، زبردست بڑائی والا
وَلَہُ الْکِبْرِیَاء  فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (37)جاثیہ سورہ ۴۵ترجمہ: آسمانوں اور زمینوں میں اس کے لئے بڑائی ہے۔
تکبیر سے مراد خدا کو بڑا جان کر اس کی بڑائی بیان کرنا ہے۔
وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً(111)بنی اسرائیل ۱۷ترجمہ:اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو۔
تکبیر یا اللہ اکبر کا ترجمہ ممکن نہیں کیونکہ خدا ہر اس وصف سے بلند ہے جو اس کی بڑائی بیان کرنے کے لئے کیا جائے۔
مفردات قرآن۔ جلد دوم۔ راغب اصفہانی

فاخر رضا

بلاگر

میرا تعارف!

0 تبصرے :

ایک تبصرہ شائع کریں