آنسوؤں کا دریا

فاخر رضا
انسان پریشانی میں نہیں روتا بلکہ بے بسی میں روتا ہے. ہم پر بہت ساری پریشانیاں آتی ہیں اور ہم انہیں دور کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں. مگر یہ جب حل نہیں ہوپاتیں تو بے بسی میں تبدیل ہوجاتی ہیں. اس وقت بے اختیار آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں
مگر ایک پریشانی ایسی ہے جسے حل کرنے کی آپ جتنی بھی کوشش کرلیں اس کا حل ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے. اور وہ ہے ہمارے گناہ. ان سے معافی صرف خدا کے ہاتھ میں ہے. اگر وہ معاف کردے تو اس کی مرضی اور اگر عدل کرے تو بھی اسی کی مرضی. مشکل تو یہ ہے کہ یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس نے معاف کیا ہے یا نہیں. اگر کر بھی دیا ہے تو کیا پہلے والی صورت میں لوٹایا ہے یا کانچ ٹوٹنے کا نشان رہ گیا ہے
الہی و ربی من لی غیرک

جب انسان بے بس ہوجاتا ہے تو اسے امام حسین علیہ السلام کی بے بسی دیکھ کر حوصلہ ملتا ہے. وہ وقت جب آپ نے اپنے چھ ماہ کے بچے کے لئے پانی مانگا اور جواب میں تیر ملا. ننھا سا گلا اور بڑا سا تیر. کہتے ہیں گلا چھدا نہیں نحر ہوگیا
حسین کی بے بسی یہاں ختم نہیں ہوتی. انہیں دفنانے کا مرحلہ آتا ہے. حسین قبر اپنی تلوار سے بناتے ہیں بچے کو لٹاتے ہیں مٹی گرم تھی. کیسے اتنے سے بچے کو لٹاتے. شاید منہ دوسری طرف کرکے لٹادیا اور بغیر دیکھے ہی مٹی ڈال دی
اس پر بھی بے بسی ختم نہ ہوئی ابھی تو خیمے میں جانے کا مرحلہ باقی ہے. آگے قدم بڑھاتے ہیں اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہیں پھر پیچھے آجاتے ہیں پھر آگے بڑھتے ہیں پھر پیچھے ہٹتے ہیں. حسین یزید کی تیس ہزار فوج کے سامنے بے بس نہیں مگر علی اصغر کی ماں کا سامنا کرنے سے بے بس ہیں
الہی و ربی من لی غیرک

شاید آنسو بہتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر تھوڑا سا بوجھ ہلکا ہوجائے

فاخر رضا

بلاگر

میرا تعارف!

0 تبصرے :

ایک تبصرہ شائع کریں