مجھے دوا نہیں شفا چاہیئے

فاخر رضا
واذا مرضت فھو یشفین
حضرت ابراہیم علیہ السلام نہایت ہی جری اور بیباک نبی تھے جو شرک کے خلاف ہر طرح سے مقابلے کے لئے تیار رہتے تھے۔ ان کا انداز بھی ایسا تھا کہ اعتراض کرنے والا خود ہی اپنے دام میں پھنس جاتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع کا قرآن میں ذکر آیا ہے جس میں خدا فرماتا ہے۔
اور انہیں ابراہیم کی خبر پڑھ کی سناؤ۔ جب انہوںنے اپنے مربی باپ اور قوم سے کہا کہ تم لوگ کس کی عبادت کررہے ہو ۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور انہی کی مجاوری کرتے ہیں۔(اس جملے سے پتہ جلتا ہے کہ وہ نہ صرف بت پرستی کرتے تھے بلکہ اس پر نازاں بھی تھے)  تو ابراہیم نے کہا کہ جب تم ان کو پکارتے ہو تو یہ تمہاری آواز سنتے ہیں ؟(یعنی ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ تمہاری مدد کریں ، تمہاری مشکلات حل کریں، خیر اگر وہ ایسا نہیں بھی کرتے تو کم از کم تمہاری بات ہی سن لیں)۔ یہ کوئی فائدہ یا نقصان پہنچاتے ہیں ؟(اس سوال پر وہ لوگ لاجواب ہوگئے اور وہی کھسا پٹا جواب دینے لگے) ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ داداکو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو ،تم اور تمہارے تمام بزرگان خاندان، یہ سب میرے دشمن ہیں،رب العالمین کے علاوہ ۔(یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں بھی کچھ لوگ اللہ کی عبادت کرتے تھے یا اسے شریک کے طور پر ضرور مانتے تھے۔ )کہ جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور پھر وہی ہدایت بھی دیتا ہے ۔(یہاں خدا نے یہ واضح کردیا کہ خلقت کے ساتھ ہی ساتھ خدا نے ہدایت بھی ہمارے خمیر میں گھوند دی ہے، اسے ہماری فطرت میں شامل کردیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بیرونی طورپر رسول اور کتاب بھی مرحمت فرمائی) وہی کھانادیتا ہے اور وہی پانی پلاتا ہے ۔(جہاں ہماری روحانی اصلاح اور ہدایت کی ضروریات کا اہتمام خدا کرتا ہے وہیں ہماری جسمانی ضروریات بھی خدا ہی پوری کرتا ہے۔غذا اور پانی اسی نے عنایت فرمائے ہیں) اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی شفا بھی دیتا ہے۔(یہاںحضرت ابراہیم علیہ السلام نے کمال ادب اور احترام کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیماری کو خدا کی طرف نسبت نہیں دی اور اسے اپنی طرف پلٹایا ہے۔ فرمایا جب میں بیمار ہوتا ہوں، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض بیماریاں بھی خدا کی طرف سے ہوتی ہیں۔مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے اپنی طرف نسبت دی۔)  (سورہ شعرا آیت 69-80)
ان آیات کے سلسلے میں بیماری اور شفا کا ذکر ہوا ہے ۔ لفظ مرض قرآن میں عام طور پر دل کے مرض یا کردار کی کمزوری کے لئے استعمال ہوا ہے اور بعض جگہوں پر دل پر مہر لگانے کی بھی بات ہوئی ہے۔ دل کی یہ بیماری جسمانی بیماری نہیں ہے بلکہ ایک روحانی بیماری ہے، جسکی آخری اسٹیج میں انسان لاعلاج ہوجاتا ہے اور پھر وہ نصیحت قبول نہیں کرتا۔ اس بارے میں قرآن کے کئی جگہ اشارہ کیا ہے۔ جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 6 سے لیکر 20 تک ذکر ہوا ہے۔
یہاں ہمارا موضوع بحث جسمانی بیماری، اس کا فلسفہ اور اس سے نجات ہے۔ اس حوالے سے ہمیں قرآن میں ہی ایک اور نبی کا ذکر ملتا ہے اور وہ ہیں حضرت ایوب علیہ السلام۔ آپ کے بارے میں بہت سی من گھڑت باتیں بھی کہی گئیں جو شاید اسرائلیات سے اسلام میں آئی ہوں اور ان کا مقصد انبیاء کی عظمت کو کم کرنا اور ان کی کردار کشی ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں ہمیں سب سے زیادہ محکم ذکر حضرت جعفر صادق علیہ السلام کی زبانی ملتا ہے۔ ہم پہلے امام کی حدیث بیان کریں گے اور اس کے بعد وہ آیت جس میں حضرت ایوب کا ذکر ہے۔
کسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جو مصیبت حجرت ایوبؑ کو دامن گیر ہوئی تھی وہ کس لئے تھی؟
امام صادق  ؑ نے اس کے جواب میں جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے۔
ایوب پر جو مصیبت آئی اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہوں نے کفران نعمت کیا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس شکر نعمت کی وجہ سے تھی، کیونکہ ابلیس نے ان پر حسد کیا اور بارگاہ خدا میں عرض کی کہ اگر وہ تیری نعمتوں کا اتنا شکر ادا کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تونے اسے بڑی خوشحال زندگی دی ہے اگر تو اس سے دنیا کی مادی نعمات کو چھین لے توپھر وہ ہرگز تیرا شکر ادا نہیں کرے گا۔ تو مجھے اس پر مسلط کردے تو پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ میں کہ رہا ہوں وہ درست ہے ۔ خدا نے اس مقصد سے کہ یہ قصہ راہ حق کے تمام راہیوں کے لئے ایک سند بن جائے ، شیطان کو اس بات کی اجازت دے دی وہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا اور ایوب کے مال اور اولاد کو یکےبعد دیگرے ختم کرتا چلا گیا، لیکن ان دردناک حادثات نے نہ صرف یہ کہ شکر ایوب میں کوئی کمی نہ کی ، بلکہ ان کا شکر اور بڑھتا گیا۔ شیطان نے خدا سے درخواست کی کہ اسے انکی زراعت اور بھیڑوں پر مسلط کردے ۔ یہ اجازت بھی اسے دے دی گئی اور اس نے ساری زراعت کو آگ لگادی اور ساری بھیڑوں کو ہلاک کردیا۔ پھر بھی ایوب کی طرف سے حمد پروردگار اور شکر میں اضافہ ہی ہوتا چلاگیا۔
آخر شیطان نے خدا سے درخواست کی کہ وہ ایوب کے بدن پر مسلط ہوجائے اور ان کےلئے شدید بیماری کا سبب بنے اور ایسا ہی ہوگیا۔ اس طرح سے کہ وہ شدت بیماری اور زخموں کی وجہ سے چلنے پھرنے اور حرکت کرنے سے بھی مجبور ہوگئے۔
البتہ ان کی عقل و شعور میں کسی قسم کا کوئی خلل پیدا نہ ہوا۔
خلاصہ یہ کہ تمام نعمتیں یکے بعد دیگرے ایوب سے لی جارہی تھیں لیکن ان کا شکر پڑھتا ہی جارہاتھا۔ یہاں تک کہ کچھ راہب انہیں دیکھنے آئے اور ان سے پوچھا:    
ہمیں بتا تو سہی! کہ تونے کونسا ایسا گناہ یا ہے کہ ایسی مصیبت میں مبتلا ہوگیا ہے؟
اس طرح کی بات سے حضرت ایوب کوتکلیف پہنچی اور انہوں نے جواب دیا: مجھے اپنے پروردگار کی عزت کی قسم ہےکہ میں نے کسی غذا کا کوئی ایک لقمہ بھی اس وقت تک نہیں کھایا، جب تک کوئی یتیم و ضعیف میرے دسترخوان پر نہ بیٹھا ہو اور خدا کی کوئی اطاعت سامنے نہیں آئی مگر یہ کہ میں نے اس میں سے سخت ترین کو اختیار کیا۔
یہ وہ موقع تھا کہ جب ایوب تمام امتحانات میں صبر و شکر کے ساتھ عہدہ برا ہوچکے تھے۔ تو زبان، دعا اور مناجات کے لئے کھولی اور خدا سے اپنی مشکلات کا حل انتہائی مؤدبانہ طریقے سے چاہا۔ لہجہ ہر قسم کی شکایت سے خالی تھا۔ فرمایا
وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
اور ایوب علیہ السّلام کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے بیماری نے چھولیا ہے اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے ۔(یہاں بھی انداز وہی ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کا تھا کہ بیماری کو خدا کی طرف نسبت نہیں دی بلکہ فرمایا کہ بیماری نے مجھے چھو لیا ہے۔ لہجہ میں کوئی شکایت نہیں تھی اور اس کے حل کے لئے خدا کو صفت رحمت سے پکارا کہ اب تو جو ارحم الراحمین ہے جیسا مناسب سمجھے کرے)
ضر ہر قسم کی بیماری اور پریشانی کو کہتے ہیں کہ جو انسان کی روح اور جسم کو عارض ہو اور اسی طرح سے یہ لفظ کسی عضو کا نقص، مال کا تلف ہونا ، عزیزوں کی موت ، حیثیت و مقام کی پامالی اور اسی طرح کی دوسری باتوں کے لئے بولا جاتا ہے۔ درج بالا قول معصوم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ایوب ان تمام ہی مطالب میں ضر کا شکار ہوئے تھے۔
اس کے جواب میں خدا فرماتا ہے۔
فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ 
تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اور ان کی بیماری کو دور کردیا اور انہیں ان کے اہل وعیال دے دیئے اور ویسے ہی اور بھی دے دیئے کہ یہ ہماری طرف سے خاص مہربانی تھی اور یہ عبادت گزار بندوں کے لئے ایک یاد دہانی ہے ۔ (سورہ انبیاء آیت 83-84)
انسان،  بیماری کو اپنے لئے ایک مصیبت اور پریشانی سمجھتا ہے اور بہت جلد اس سے گھبراجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں انبیا ءؑ اور ائمہ معصومین علیہم السلام بیماری کو خدا کی حکمت سمجھتے تھے اور اس میں بھی اپنے لئےمثبت پہلو ڈھونڈتے تھے۔ اس سلسے میں امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا جو وہ کسی بیماری یا کرب و اذیت میں مبتلا ہونے کی صورت میں پڑھتے تھے، بیماری کے فلسفے اور خدا سے طلب صحت کے متعلق دعا میں فرماتے ہیں۔
 اے معبود! تیرے ہی لیے حمد وسپاس ہے اس صحت وسلامتی بدن پر جس میں ہمیشہ زندگی بسر کرتا رہا اور تیرے ہی لئے حمد سپاس ہے اس مرض پر جو اب میرے جسم میں تیرے حکم سے رونما ہوا ہے۔ اے معبود! مجھے نہیں معلوم کہ ان دونوں حالتوں میں سے کونسی حالت پر تو شکریہ کا زیادہ مستحق ہے اور ان دونوں وقتوں میں سے کونسا وقت تیری حمد وستائش کے زیادہ لائق ہے۔ آیا صحت کے لمحے
 جن میں تو نے اپنی پاکیزہ روزی کو میرے لیے خوش گوار بنایا اور اپنی رضا وخوشنودی اورفضل واحسان کے طلب کی امنگ میرے دل میں پیدا کی اور اس کے ساتھ اپنی اطاعت کی توفیق دے کر اس سے عہدہ برآ ہونے کی قوت بخشی
 یا یہ بیماری کا زمانہ
 جس کے ذریعہ میرے گناہوں کو دور کیا اور نعمتوں کے تحفے عطا فرمائے تاکہ ان گناہوں کا بوجھ ہلکا کر دے جو میری پیٹھ کو گراں بار بنائے ہوئے ہیں اوران برائیوں سے پاک کر دے جن میں ڈوبا ہوا ہوں اورتوبہ کرنے پر متنبہ کر دے اورگزشتہ نعمت (تندرستی ) کی یاد دہانی سے کفر(کفر ان نعمت کے ) گناہ کو محو کر دے اوربیماری کے اثنا میں کاتبان اعمال میرے لیے وہ پاکیزہ اعمال بھی لکھتے رہے جن کا نہ دل میں تصور ہوا تھا نہ زبان پر آئے تھے اورنہ کسی عضو نے ا سکی تکلیف گوارا کی تھی ۔ یہ صرف تیرا تفضل واحسان تھا جو مجھ پر ہوا ۔
اے اللہ !رحمت نازل فرما محمد اوران کی آل پر اور جو کچھ تو نے میرے لیے پسند کیا ہے وہی میری نظروں میں پسندیدہ قرار دے اور جو مصیبت مجھ پر ڈال دی ہے اسے سہل وآسان کر دے اورمجھے گزشتہ گناہوں کی آلائش سے پاک اورسابقہ برائیوں کو نیست ونابود کر دے اورتندرستی کی لذت سے کامران اورصحت کی خوش گواری سے بہرہ اندوز کر اور مجھے اس بیماری سے چھڑا کر اپنے عفو کی جانب لے آ ، اوراس حالت افتادگی سے بخشش ودرگزر کی طرف پھیر دے اور اس بے چینی سے نجات دے کر اپنی راحت تک اور اس شدت وسختی کو دور کرکے کشائش ووسعت کی منزل تک پہنچا دے اس لیے کہ تو بے استحقاق احسان کرنے والا اور گرانبہا نعمتیں بخشے والا ہے اور تو ہی بخشش وکرم کا مالک اورعظمت وبزرگی کا سرمایہ دار ہے۔
خدا سے دعا ہے کہ ہر بیمار کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے صدقے میں تمام بیماروں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

فاخر رضا

بلاگر

میرا تعارف!

0 تبصرے :

ایک تبصرہ شائع کریں