قیل  للحسن بن علی : فیک عظیم ۔قال: لا بل عزقال اللہ تعالٰی : وللہ العزولرسولہ وللمؤمنین۔
حسن بن علی سے کہا گیا : آپ عظیم ہیں. فرمایا : نہیں میں عزیز ہوں۔اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : عزت اللہ کے لئے، اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے ہے۔
 رسول اکرم کی حدیث ہے
لو کان العقل رجلاََ لکان الحسن
اگر عقل کسی انسان کی شکل میں مجسم ہوتی تو وہ حسن ہوتے
 رسول اللہ نے امام حسن سے اظہار محبت کے موقع پر فرمایا
دیکھنے والے اس اظہار محبت سے ان لوگوں کو مطلع کریں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کا ارشاد ہے
میں اِس سے محبت کرتا ہوں اور اُس سے بھی جو اِس سے محبت کرتا ہے
جنگ صفین کے موقع پر امام حسن علیہ السلام نے تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اپنے دشمن م اور اس کے سپاہیوں کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ اور سستی نہ کرو کیونکہ سستی دل کی رگوں کو کاٹ ڈالتی ہے
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے
حسن اور حسین دونوں امام ہیں چاہے قیام کریں چاہے قیام نہ کریں
حضرت علی علیہ السلام نے جمعے کے دن جبکہ وہ کچھ بیمار تھے ، حکم دیا کہ حسنؑ نماز پڑہائیں۔ : امام حسن ؑ نے پہلے خطبے میں ارشاد فرمایا: جو کوئی مجھے پہچانتا ہے ، وہ تو پہچانتا ہی ہے، اور جو مجھے نہیں پہچانتا وہ جان لے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرزند ہوں، میں بشیر و نذیر کا فرزند ہوں۔ میں خدا کی طرف سے اس کی طرف دعوت دینے والے کا فرزند ہوں۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا لقب سراج منیر (روشن چراغ) ہے۔ میں اُن اہل بیت میں سے ہوں جن سے خدا نے رجس و پلیدی کو دور اور انہیں پاک و پاکیزہ کیا ہے، وہ لوگ جن کی دوستی کو خدا نے قرآن میں واجب قرار دیا ہے۔ ( خدا نے فرمایا ہے: کہ دو کہ میں تم سے اس رسالت کا کوئی اجر طلب نہیں کرتا سواہے اپنے قرابتداروں کے ساتھ محبت کے) اور جو کوئی بھی نیک کام کرے گاہم اسکی نیکی میں اضافہ کریں گے۔ پس نیک کام ہم اہل بیت سے محبت رکھنا ہے۔ 
ایک اور خطبے میں امام حسن ؑ نے فرمایا: ہم حزب اللہ کامیاب ہیں، ہم رسول اللہ ؐ کے نذدیکی قرابتدار ہیں ، ہم اہل بیت طیب و طاہر اور ’’ثقلین‘‘ میں سے ایک ہیں جنہیں رسول خدا نے تمہارے درمیان چھوڑا ہے، جبکہ (اسمیں سے) دوسری وہ کتابِ خدا ہے جس میں کسی طرف سے باطل کے داخلے کی گنجائش نہیںہے ۔۔۔ پس ہماری اطاعت کرو کہ ہماری اطاعت واجب ہے۔ کیونکہ یہ خد، رسول ؐ اور اولی الامر کی اطاعت سے ملحق ہے۔ اگر کسی چیز میں نزاع کر بیٹھو تو اسے خدا اور رسول ؐ کے پاس لے جاؤ ۔۔۔ اور اگر رسولؐ اور اولی الامر کے پاس لے جایا جائے تو یقیناََ جو اہل استنباط علم ہیں وہ اسے جان لیں گے۔ 
ہلال بن یساف کہتا ہے کہ میں حسن ابن علی ؑ کے ایک خطبے میں موجود تھا، آپ فرمارہے تھے: اے اہلِ کوفہ ! ہمارے بارے میں خدا سے ڈرو۔ ہم تمہارے امیر اور تمہارے مہمان ہیں۔ ہم وہ اہل بیت ہیں جن کے بارے میں خدا نے فرمایا ہے: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا       ۔الأحزاب۳۳
(یہ خطبہ اس موقع پر تھا جب ساباط کے مقام پر آپ زخمی ہوئے تھے۔ )
امام حسن ؑ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! میں نےاس لئے یہ امر(خلافت) اس کے حوالے کردیا کہ میرا کوئی مددگار نہیں تھا۔ اگر میری مدد کرنے والے ہوتے، تو اس کے خلاف دن رات لڑتا، یہاں تک کہ خدا میرے اور اسکے درمیان فیصلہ کردیتا۔

دوستی کیجیے صحت مند رہیے
السلام علیکم

روائتی دوستی میں دوست کو باقاعدہ سنبھالنا پڑتا تھا اور دوستی قائم رکھنے کے لئے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے تھے. دوست کا روٹھ جانا ایک مسئلہ ہوتا تھا جس میں والدین تک شامل ہوجاتے تھے اور دوستیاں دوبارہ کراتے تھے. پوری پوری فلمیں اس موضوع پر بنی ہیں.
یہاں میں وہ بنیادی اخلاقی اصول لکھوں گا جن کا ہونا دوستی قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے
آپ دیکھیں گے کہ یہ اصول ایک لڑکپن سے گزرتے فرد کے لئے زندگی گزارنے میں کتنے معاون ثابت ہوتے ہیں
Developmental psychology میں یہ اصول کہیں کہیں ملتے ہیں
Empathy
Thankfulness
Self pity
Forgiveness
اپنے دوست کی ہر ممکن مدد کے لئے تیار ہونا
اپنے دوست کا شکرگزار ہونا
انکساری برتنا اور غرور سے پرہیز
اپنے دوست کی غلطیاں معاف کردینا
ان سب اصولوں کو اگر برتا جائے تو انسان اس معاشرے میں ایک fit انسان اور قابل قدر دوست کی طرح زندگی گزار سکتا ہے
دوست انسان کو بہت سی نفسیاتی بیماریوں سے بچاتے ہیں اور اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کی جاسکتی ہے
ایک بچے میں یہ خصوصیات خود بخود نہیں آتیں بلکہ اس کے لئے والدین کو بھی محنت کرنا پڑتی ہے
آج جبکہ سوشل میڈیا بچوں کو شدت پسندی، جارہیت، تشدد اور دہشت گردی کی طرف لے جارہا ہے، والدین کی ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں کے اچھے دوست بنوائیں اور ان کی دوستی برقرار رکھنے کے لئے ان کی مندرجہ بالا اصولوں کی روشنی میں مدد کریں
اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ دوستی کسی کی فرینڈ ریکویسٹ قبول کرنے اور ناراضگی پر انفرینڈ کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک serious matter ہے
مغرب میں رہنے والوں کو اس بات کا زیادہ اندازہ ہوگا کہ اپنے بچوں کو شدت پسندی سے بچانا کتنا مشکل ہوتا جارہا ہے. اب انہیں دوبارہ اپنے اخلاقی اقدار کی طرف پلٹنا ضروری ہوگیا ہے، اور یہ اصول ان کے لیے ایک اچھا سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں.
ان اصولوں میں ایک اور اضافہ کرلیں اور وہ یہ ہے کہ اپنے بچوں کو self identity اورpurpose of life کی طرف متوجہ کریں. اس طرح جب وہ اپنے دوست بنائیں گے تو یہ ضرور دیکھیں گے کہ کونسا دوست ان کے مقصد زندگی کے حصول کے لیے معاون ہے اور کون نقصان دہ
مذہبی ہونا انسان کو مقصد زندگی فراہم کرتا ہے، اسے اس دنیا کی بے ثباتی کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اسے خالق حقیقی کے بنائے ہوئے اصولوں پر زندگی گزارنے پر اکساتا ہے. اپنے بچوں کو مذہب سے متعارف کرائیں تاکہ وہ ان معاملات میں کسی فسادی کے ہتھے نہ چڑھ جائیں. یاد رکھیں ہر شخص کسی نہ کسی عمر میں مذہب کی طرف متوجہ ہوتا ہے مگر صحیح رہنمائی کا فقدان اسے کنفیوز کردیتا ہے
میری کوشش ہوگی کہ ان تمام باتوں پر الگ الگ سیر حاصل گفتگو ہو
راستے پر چلنے کے مقصد ہوتا ہے اور وہ ہر عقلمند کے نذدیک منزل پر پہنچنا ہوتا ہے. اسے فوزالعظیم کہیں یا رضوان اللہ یا جنت یا قربت الی اللہ 
ہمیں سیدھے راستے پر چلتے ہوئے منزل بھی چاہیے 
اگر اس دنیا کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہر انسان ایک عادل حکومت کا منتظر ہے، خواہشمند ہے، کچھ لوگ کوشش بھی کررہے ہیں. 
یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ عادل حکومت کے حصول کے لیے غیر عادلانہ ہتھکنڈے استعمال نہیں کئے جاسکتے، اب چاہے حکومت بنے یا نہ بنے اصولی سیاست اور عادلانہ طرز عمل کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا جاسکتا 
جس چیز کی ایک مومن کو پرواہ نہیں ہونی چاہئے وہ ملامت کرنے والوں کی ملامت ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے. لوگوں کی پرواہ کرتے ہوئے نہ تو نماز ترک کرنی چاہیے نہ عادلانہ حکومت کے قیام کی کوشش. 
ایک عادل، صالح حکومت میں انسان روحانی طور پر بلند ہوتا ہے کیونکہ ماحول سازگار ہوتا ہے. ہمارے پیارے نبی کریم نے بھی مدینے میں آکر یہی کیا 
عادلانہ حکومت کا قیام اور وہ بھی اصولی اور عادلانہ طریقے سے، یہ سیدھا راستہ کٹھن ہوتا ہے، مگر یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ سیدھا راستہ ہی shortest ہوتا ہے. جس کو لوگ short cut کہتے ہیں وہ جہنم کا short cut ثابت ہوسکتا ہے. جنت کا نہیں
جب محبوب حقیقی کی نیاز میں حاضری ہوتی ہے تو سب کچھ اتار کر بغیر سلا کفن نما احرام ہی پہنا جاتا ہے اور جب جہان فانی سے جاتے ہیں تو بھی سب کچھ اتار کر وہی بغیر سلا اصل کفن۔ 
اب جو اپنی مرضی سے اس دنیا میں پہن لے اس کے نصیب کی بات ہے۔ 
جتنا بھی وفور محبت ہو تب بھی آداب عشق تو ملحوظ رکھنے ہی پڑتے ہیں۔ عشق میں دیوانہ وار دوڑنے کے باوجود انسان دیوانہ نہیں ہوتا۔ اسی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے اور اسی کی مرضی کے تابع رہتا ہے۔ ایک وقت تھا جب بی بی حاجرہ پانی کی تلاش میں دیوانہ وار دوڑ رہی تھیں اور خدا نے زمزم کا اہتمام کردیا۔ یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ وہ پانی کی تلاش میں تھیں یا خدا کو پکار رہی تھیں۔ وہ پیاس زمزم کی تھی یا عشق کی آگ تھی۔ 

ایک عام بات یہ ہے کہ صوفیا جو اصل میں صوفیا رہے ہیں، ہمیشہ شریعت کے پابند رہے ہیں۔ ان کے ہاں کسی بھی طرح شریعت کا لحاظ نہ رکھنا بارگاہِ حق میں بے ادبی کے مترادف ہے۔ 
ان کا عشق بندگی کی حد کو پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اور یہ عشق (بندگی والا عشق) صرف خدا ہی کے لئے جائز سمجھتے ہیں۔ شاید اسی لئے ان کی لوگوں سے نہیں بن پاتی۔ ان کے مرید تو ہوتے ہیں مگر دوست کم ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ دوستی دو طرفہ ہوتی ہے اور مریدی یک طرفہ۔ عاشق اپنے عشق میں ہی رہتا ہے اور مرید عاشق کے عشق میں۔ ایک طرف عبادت ہورہی ہوتی ہے اور دوسری طرف شرک۔ کہا دونوں کو عشق ہی جاتا ہے۔ پھر جب عقدہ کھلتا ہے تو صرف اللہ ہی اللہ رہ جاتا ہے۔ پیر اور مرید ختم ہوجاتے ہیں۔ 
کعبہ کے گرد پروانوں کا چکر لگانا اور اس آگ میں جلنے کی آرزو جس میں ابراہیم علیہ السلام کود گئے تھے۔ کیا منظر ہوتا ہے۔ خد اسب کو زیارت نصیب کرے
ایک اور مصروف ترین دن کا حال سنیں 
تقریباً 45 سال کا مرد، ایک بیٹی کا باپ اور روزگار کی غرض سے اپنے وطن سے دور 
میرے پاس وہ شخص خون کے کینسر کے وارڈ سے لایا گیا، وہاں اس کے علاج کی تمام تر کوششیں کی جاچکی تھیں. اس کا مرض یہ تھا کہ اس کے خون میں پلیٹلیٹ نام کے خلیے نا ہونے کے برابر رہ گئے تھے. اس وجہ سے اسے ہر طرف سے خون بہ رہا تھا. تمام مریضوں کی طرح یہ مریض بھی مصنوعی سانس کی مشین پر تھا. مگر اس کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے جگر نے کام چھوڑ دیا تھا، بیلی روبن آسمان پر تھا، گردے ڈھے گئے تھے اور اس کا ڈائلیسس ہورہا تھا، بلڈ پریشر کم اور مسلسل خون چڑھایا جارہا تھا. اسی دوران پھیپھڑوں سے خون آنے لگا، ایک طوفانی کیفیت ہوگئی. خیر جو بھی طریقے مہیا تھے سب اختیار کئے. آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین علاج مہیا ہے اور وہ سب ذرائع استعمال کئے جارہے تھے. اس آدمی کا روزانہ پلازمہ بھی تبدیل کیا جا رہا تھا. اور یہ عمل بھی بہت پیچیدہ تھا. میرے جتنے بھی سینیئر تھے انہوں نے اس طرح کے کیس کو بچتے نہیں دیکھا تھا. نوے فیصد لوگ مرجاتے ہیں وہ بھی ترقیم یافتہ ممالک میں. خیر چونکہ یہ ہمارے ہی ملک کا شہری تھا لہٰذا اس کی فیملی سے بات کرنے کی ذمہ داری مجھ پر تھی. اس کی بیوی بہت ہی صابرہ تھی، خود نرس رہ چکی تھی اور سب دیکھ اور سمجھ رہی تھی. میں نے سب کو بلا کر بری خبر سنائی، ایسے جیسے پھانسی والی رات فیملی کو بلایا جاتا ہے. انہیں بتایا کہ یہ مرنے والا ہے اور ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ سود مند ثابت نہیں ہو رہا. انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان لے جائیں گے. پھر انہوں نے کہا کہ ہمیں خدا پر بھروسہ ہے اور یہ ٹھیک ہوجائیں گے. اس پر میں نے انہیں بتایا کہ ہم یہاں خدا کو نہیں لاسکتے، اور فی الحال صرف میڈیکل ہی کی بات کررہے ہیں ہاں آپ دعا کرتے رہیں. مجھے ویسے کچھ حوصلہ ملا اور میں نے اپنا ٹیم سے کہا کہ اب ہمیں ذرا بھی کوتاہی یا غفلت نہیں برتنی اور اگلے دو دن وہ سب کچھ کرنا ہے جو اب تک کررہے تھے ساتھ ہی ساتھ خون کے ایکسپرٹ کو بھی دوبارہ بلایا. انہوں نے بھی اپنی طرف سے دوائیں دیں. ساتھ ہی پلازمہ بھی تبدیل ہوتا رہا. 
ٹھیک دو دن بعد ہم نے دیکھا کہ اب اسے پلیٹلیٹ دینے کی ضرورت نہیں پڑرہی. باقی حال ویسا ہی تھا. مجھے اندر سے ایک امید پیدا ہوئی. ملک کا ہونے کی وجہ سے ایک جذباتی تعلق بھی ہوگیا تھا اور ایک چیلنج بھی تھا. خیر اگلے دو دن میں مزید حالت بہتر ہوئی. ایک بات پہلے لکھنا بھول گیا کہ اسے مرگی کے چھٹکے بھی پڑ رہے تھے جس کی وجہ سے وہ بیہوش تھا. آہستہ آہستہ بیہوشی بھی ٹھیک ہوتی گئی. پانچ دن بعد اسکی بیوی اسے ٹیبلٹ پر اسکی بیٹی کی تصویر دکھا رہی تھی اور وہ خوشی سے رو رہا تھا 
اگلے چند دن میں وہ وینٹیلیٹر سے باہر آگیا اور کافی حد تک صحتیاب ہوگیا. ابھی امریکہ آنے سے چند دن پہلے وہ وارڈ میں چلا گیا. ابھی بھی اسکا پلازمہ تبدیل ہوتا ہے اور شاید کچھ عرصہ ہوتا رہے، مزید ڈائلیسس کی ضرورت نہیں رہی اور باقی عضلات بھی روبہ صحتیابی ہیں 
مجھے میرے دوست کہتے ہیں کہ تم موت کا یقینی وقت کیسے بتا دیتے ہو تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ میں موت کا وقت لکھتا نہیں ہوں وہ کام خدا کا ہے، میں تو صرف پڑھ کر بتا دیتا ہوں. مگر کبھی کبھی خدا بھی اپنا لکھا بدل دیتا ہے اور موت کو ٹال دیتا ہے. بلک مکمل طور پر صحت یاب کردیتا ہے. اب جن لوگوں سے کہا تھا کہ وہ نہیں بچے گا وہ بہت خوش تھے اور سمجھ رہے تھے کہ یا تو معجزہ ہو گیا ہے یا ڈاکٹروں نے بہت محنت کی ہے. محنت تو خیر ہر ایک کے ساتھ ہی کرنی پڑتی ہے مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس مریض کی جان خدا نے اسکی ننھی بیٹی کی دعاؤں کے صدقے میں بچالی. خدا سب کی بیٹیوں کو زندہ سلامت اور ہنستا کھیلتا رکھے. بیٹیاں سچ مچ میں موت سے لڑ جاتیں ہیں اور باپ کو بچا لیتی ہیں. اور ایسے موقعوں پر باوجود اپنی کچی ہونے کے میں بہت خوشی محسوس کرتا ہوں، ایک ایسی خوشی جو روپے پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی.
ایک صبح اسپتال پہنچا، ابھی ایکسرے میٹنگ شروع ہی ہوئی تھی کہ نرس نے بتایا کہ ایک مریض کو خون کی الٹیاں ہورہی ہیں. میں جب وہاں پہنچا تو بلڈپریشر بے انتہا کم تھا. فوراً خون کے انتقال کا انتظام کیا. ایسے موقعوں پر خون کی چھ بوتلیں، پلیٹلیٹ کی چھ بوتلیں اور پلازمہ بھی اس مقدار میں ایک ساتھ دیا جاتا ہے اور یہ سب دس منٹ میں مہیا کرنا ہوتا ہے. معدے کے ڈاکٹرز کو بلایا انہوں نے اینڈواسکوپی کی اور وہاں صرف خون ملا. ایک غبارہ معدے میں ڈالا گیا اور اسے پھلایا تاکہ خون رک جائے. خون مسلسل بہ رہا تھا. اسی وقت ایکسرے ڈپارٹمنٹ میں فون کر کے کہا کہ کچھ کریں. انہوں نے کہا کہ فوراً مریض کو لے کر پہنچو. یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ مریض مصنوعی سانس کی مشین پر لگایا جاچکا تھا اور دل کو پمپ بھی کرنے کے لئے ادویات دی جارہی تھیں. خیر مریض کو لے کر ایکسرے ڈپارٹمنٹ میں پہنچے. وہاں اس کی نسوں کے ذریعے سے وہاں پہنچنے کی کوشش کی گئی جہاں سے خون بہ رہا تھا. اس موقع پر ہم مسلسل خون کا انتظام کررہے تھے اور وہاں کے معالجین اپنا کام کررہے تھے. تقریباً تین گھنٹے کی مشقت کے بعد اس مریض کا بلڈ پریشر کچھ بہتر ہوا. واپس آئی سی یو میں آئے. یہاں پھر خون بہنا شروع ہوا پھر چھ چھ بوتلیں دی گئیں. اسی تمام کاروائی میں دوپہر ہوچکی تھی. تھکن سے سب چور چور ہوچکے تھے. پھر بھی لگے ہوئے تھے. دوبارہ معدے کے ڈاکٹر کوبلایا گیا مگر کوئی بھی حربہ خون روکنے میں ناکام رہا 
آخر تقریباً شام چار بجے یہ فیصلہ ہوا کہ اس مریض کی جان نہیں بچائی جاسکتی اور اسے مزید خون نہیں دیا جائے گا، رات تک اس کا انتقال ہو گیا 
یہ میرا معمول کا کام ہے اور تقریباً پینتیس فیصد مریض مر جاتے ہیں، مگر پینسٹھ فیصد بچ بھی جاتے ہیں 
ہمارا کام کاروبار نہیں ہے جس میں نقصان کے ڈر سے انویسٹ نہیں کیا جاتا بلکہ دس فیصد فائدے کی امید پر بھی کوشش کی جاتی ہے 
آخری بات ان لوگوں سے کہنی ہے جو انسان کی جان کو شک و شبہ اور ذاتی عقائد کی بنا پر لے لیتے ہیں. ایک دفعہ آکر دیکھیں کہ ہم ایک انسان کی جان بچانے کے لیے کیا کیا کرتے ہیں. میرے عزیز ترین اور اعلٰی ترین دوستوں کو گولی ماری گئی وہ بھی سر میں اور میں یہی سوچتا رہا کہ کیا یہ سب کرنے والے انسان ہیں. کیا وہ لوگ جو ایسا کرتے ہیں، دلیل کے مقابلے میں گولی، اپنی ہار تسلیم نہیں کرلیتے. 
بات کہیں اور چلی گئی مگر سوچا کہ کہ دوں.
میں اکثر سوچتا ہوں کہ انسان جھوٹ زیادہ بولتا ہے یا چوری زیادہ کرتا ہے 
دیکھا جائے تو ہم چوری کو جھوٹ سے زیادہ برا سمجھتے ہیں مگر اسکے باوجود جھوٹ سے زیادہ چوری کررہے ہوتے ہیں 
ہمارے نزدیک چوری کی بعض قسمیں اب مباح قرار دی جاچکی ہیں، جبکہ ہمارے بزرگ ان معاملات میں بہت سخت تھے. اگر کوئی رقم کسی کے پاس ہوتی تو وہ اسکے نوٹ تک تبدیل نہیں کرتا تھا. وقت سے ایک منٹ پہلے بھی آفس سے اٹھنا حرام سمجھا جاتا تھا. بجلی یا پانی چوری کرنا انتہائی درجے کی معیوب بات تھی. راستے میں پڑی ہوئی چیز کو لوٹانا ایک قدر تھی. لوگ اس کام میں فخر محسوس کرتے تھے. بچوں کی عیدی والدین ہی کو ملتی تھی مگر اسے بھی بچوں سے پوچھ کر یا انہی کی ضروریات پر خرچ کرتے تھے. کتابوں میں لالچ بری بلا ہے قسم کے اقوال پر کہانیاں ہوتی تھیں. ٹی وی پر تو کیا اگر کسی کی اخبار میں بھی چوری کی خبر کے ساتھ تصویر آجائے تو وہ منہ چھپاتا پھرتا تھا. والدین شرم سے پانی پانی ہوجاتے اور نوبت محلہ بدلنے پر پہنچ جاتی. نامحرم کی طرف آنکھ بھر کے دیکھنا بھی چوری تصور ہوتا تھا. بچے کے بیگ سے اگر کسی کی پینسل یا شارپنر نکل آتا تو شامت آجاتی اور بے بھاؤ کی مار پڑتی
ابھی بھی کچھ خاندانوں میں اس طرح کے آثار پائے جاتے ہیں مگر بحیثیت قوم ہمارے اندر سے یہ اقدار ختم ہوچکی ہیں. کسی کا موبائل اٹھا لینا، پیٹرول چوری کرنا، سکشن مشین سے پانی کھینچنا، کنڈے سے بجلی چرانا، زیادہ کی ہوس میں اپنے پرائے کا احترام نہ کرنا اور اسی طرح کی دوسری بری اقدار اب چھا چکی ہیں. موبائل فون مسجد میں بھی چوری ہوتے ہیں، بس میں بھی اور اسپتال میں بھی. کوئی جگہ نہیں بچی جہاں چوری نہ ہو. کسی پرائیویٹ ادارے میں وقت کے اندر کام کرنا محال ہے اور اوور ٹائم لگانا فرض ہے. گورنمنٹ اداروں میں وقت پر آنا اور پورے وقت ٹھہرنا مفقود ہوچکا ہے. اگر غلطی سے کوئی حلال خور افسر آ بھی جائے تو ماتحت اس کا جینا حرام کردیتے ہیں
اگر اس قوم کے حکمران چور ہوں بھی تو مجھے بتائیے کہ کون ہے جو انہیں سزا دینے کا اخلاقی حق رکھتا ہے، پولیس، عدالت، فوج، میڈیا کون سا ادارہ دودھ سے دھلا ہوا ہے 
حل کیا ہے
حل یہ ہے کہ میں اور آپ اپنے بچوں کو حلال کھلائیں، اگر ان کے پیٹ حرام سے محفوظ ہوں گے تو وہ صحیح بات سن سکیں گے. یہی بات امام حسین علیہ السلام نے اپنی شہادت سے قبل کہی تھی. فوج یزید دے خطاب فرماتے ہوئے جب سپاہیوں نے شور مچایا تو آپ نے فرمایا 
 وائے ہو تم پر میری طرف توجہ کیوں نہیں دیتے ہو تاکہ تم میری بات سن سکو۔ جو شخص بھی میری پیروی کرے گا وہ خوش بخت اور سعادت مند ہے اور جو کوئی گناہ اور مخالفت کا راستہ اختیار کرے گا، ہلاک ہونے والوں میں اس کا شمار ہوگا۔ تم سب نے گناہ اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا۔ میرے حکم اور مشن کی مخالفت کر رہے ہو، اسی لئے میری بات نہیں سن رہے۔ ہاں یہ ان ناجائز اور حرام طریقہ سے حاصل شدہ تحفوں کا اثر ہے جو تمہیں اس فاسق گروہ کی طرف سے ملے ہیں۔ یہ ان حرام اور حرام غذاؤں اور غیر شرعی لقموں کا اثر ہے جن سے تمہارے پیٹ بھرے ہوئے ہیں کہ خدا نے تمہارے دلوں پر اس طرح مہریں لگا دی ہیں کہ میری بات نہیں سن رہے۔ تم پر افسوس ہو کیا چپ نہیں ہوتے۔ 
اس خطاب سے محسوس ہوتا ہے کہ رشوت اور مال حرام انسان کو حق سننے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے ناقابل بنا دیتا ہے
خدا ہمیں رزق حلال کھانے اور آپ اولاد کو رزق حلال کھلانے کی توفیق عطا فرمائے 
والسلام 
فاخر