آئیں معاف کریں

فاخر رضا
آئیے معاف کریں 
میرے بابو نے مجھے ایک بات سکھائی تھی، وہ کہتے ہیں کہ کسی کو معاف کرنا اور معافی مانگنا سامنے والے کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے لئے مفید ہے. وہ کہتے ہیں کہ کسی سے آپ کے دل میں خلش، پاؤں میں چبھے کانٹے کی طرح ہے، جب چلیں گے تکلیف ہوگی. علاج ہے پاؤں سے کانٹا نکال دینا، یعنی معاف کردینا. ہم کڑھ کڑھ کے جس کے لئے اپنی راتیں برباد کرتے ہیں وہ تو سکون سے سو رہا ہوتا ہے. اگر آپ بھی سکون چاہتے ہیں تو معاف کر دیں. میں اس میں اتنا اضافہ کردوں کہ معاف کر دیں اور معافی مانگ لیں. جس سے معافی نہیں مانگ سکتے اس کی مغفرت کے لئے دعا کریں.
ایک اور بات اور یہ ہے کہ بابو کہتے ہیں جو معاف کرے گا اسی کو معافی ملے گی.
معاف کرنا ایک خدائی صفت ہے اور خدا اس صفت کو بہت پسند کرتا ہے. وہ غفار بھی ہے اور ستار بھی، یعنی معاف کر دیتا ہے، اور اس معافی کا نہ دوسروں کو بتاتا ہے، نہ جتاتا ہے نہ گناہ کو آشکار کرتا ہے. ہمیں بھی معاف کرتے وقت ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے.
کسی کو معاف کرنے کے لئے سامنے والے کے معافی مانگنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے. بس معاف کردینا چاہیے. فاخر 
صبر کرنا اورمعاف کردینا بہت مشکل ہے۔بہت ہی مشکل۔لیکن ہمیں یہ دعا کرتے رہنی چاہیے کہ اللہ ہمیں معاف فرمائے اور معاف کرنے کی توفیق اور آسانی بھی عطا کرے۔آمین!ثم آمین!
بعض اوقات اس قدر بڑے اور دائمی نقصان ہو چکے ہوتے ہیں کہ اللہ کی قسم !ہرگز ہر گز معاف کرنے کو دل نہیں مانتا ،نہیں مانتا۔۔۔۔۔۔۔
لیکن پیارے نبیﷺ کا کہنا کیسے نہ مانیں۔۔۔۔۔
۔کیسے اُن کا سامنا کریں گے اگر معاف نہیں کریں گے؟
کیسے اللہ سے معافی کی امید و تمنا رکھیں گے اگر معاف نہ کریں گے؟
کیسے اپنے بچوں کو درگذر کرنا سکھائیں گے اگر خود نہیں کریں گے؟
اللہ ہمیں معاف فرمائے اور ہمارے دلوں سے کینہ،نفرت،بغض،حسد،بدلہ کا خیال نکال کے ہمارے دلوں کو صاف شفاف اور اولوں کے پانی سے دھو ڈالے۔ہمارے دلوں کو سکون اور ٹھنڈک عطا فرمائے۔صحت و آرام دے۔ہمارے نقصانات کے بدلے بہترین جزا اور بدل عطا فرمائے۔ موت کے وقت ہم نے سب کو  معاف کر دیا ہو اور سب نے ہمیں ۔کسی کا کوئی حق اور قرض اور معافی مانگنی رہ نہ  گئی ہو۔آمین! ثم آمین! جاسمن
آپ کا لکھا ہوا پڑھ کر رقت تاری ہو گئی. جب بھی رسول اکرم کا نام آتا ہے تو فتح مکہ یاد آجاتی ہے. کیسے آپ نے سید الشہداء حضرت حمزہ کا خون معاف کیا تھا. معاف کرنے کے لئے اتنا ہی جگر چاہیے.
شاید جب ہم ایک بڑے مقصد کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں تو یہ کام آسان ہو جاتا ہے.
کربلا ہی کو دیکھ لیں، امام حسین علیہ السلام نے اپنے چھ ماہ کے بچے کو اپنی گود میں تڑپتا دیکھا پھر بھی امت کی اصلاح کی دعا کرتے رہے. فاخر 
خدا ہم سب کو اپنی مغفرت سے مستفید فرمائے.
اپنے محبوب چچا کے قاتلوں کو معاف کرنا بہت ہی بڑا عمل ہے۔
اس کے علاوہ مجھے واقعہ طائف بہت ہی بڑا واقعہ لگتا ہے معافی کے حوالے سے۔ میری روح کانپ اُٹھتی ہے جب میں یہ واقعہ یاد  کرتی ہوں۔۔۔آپ تصور کریں کہ اتنے سارے لوگ آپ کے پیچھے ہوں اور مسلسل آپ کی شان میں۔۔۔ اور مزید اپ کو جسمانی تکلیف بھی دے رہے ہوں۔ آوازے۔۔۔۔آہ! ۔کون برداشت کر سکتا ہے؟
کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔یہ مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے۔لیکن ہمارے پیارے نبیﷺ نے اس ناممکن کام کو ممکن بنا دیا۔ ہے کوئی اُن جیسا؟ہمارے پیارے پیارے پیارے پیارے نبیﷺ۔۔۔ہمارے آخری نبیﷺ۔۔۔۔
بس یہ واقعہ ہی یاد کر لیں تو معاف کرنا کچھ آسان لگنے لگتا ہے۔جاسمن 

فاخر رضا

بلاگر

میرا تعارف!

1 تبصرہ :

  1. معاف کر دینے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے. اگر موت کو آسان کرنا چاہیں تو اپنے آپ کو ہلکا پھلکا رکھیں. اللہ آسانیاں فراہم کرے گا. اور ہاں ہمیشہ معافی مانگنے میں جلدی کریں ورنہ یہ مشکل ترین ہوتی چلی جاتی ہے. فاخر اچھی تحریر ہے.

    جواب دیںحذف کریں